Tafseer of Surah Lahab, Surah lahab, Surah lahab with urdu and English translation, Surah lahab tafseer, سورت لہب ترجمہ اور تفسیر
Surah lahab
Surah Lahab with urdu and English translation
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ ؕ﴿۱﴾
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ( خود ) ہلاک ہوگیا ۔
May the hands of Abu Lahab be ruined, and ruined is he.
مَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُ مَالُہٗ وَ مَا کَسَبَ ؕ﴿۲﴾
نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی ۔
His wealth will not avail him or that which he gained.
سَیَصۡلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ ۚ﴿ۖ۳﴾
وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا ۔
وَّ امۡرَاَتُہٗ ؕ حَمَّالَۃَ الۡحَطَبِ ۚ﴿۴﴾
اور اس کی بیوی بھی ( جائے گی ، ) جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے ۔
And his wife [as well] - the carrier of firewood.
فِیۡ جِیۡدِہَا حَبۡلٌ مِّنۡ مَّسَدٍ ٪﴿۵﴾
اس کی گردن میں پوست کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہوگی ۔
Around her neck is a rope of [twisted] fiber.
Tafseer of Surah Lahab
1: ابو لہب، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک چچا تھا جو آپ کی دعوتِ اسلام کے بعد آپ کا دُشمن ہوگیا تھا اور طرح طرح سے آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار اپنے خاندان کے لوگوں کو صفا پہاڑ پر جمع فرماکر اُن کو اسلام کی دعوت دی تو ابو لہب نے یہ جملہ کہا تھا کہ : تبا لک الھذا اجمعتنا : یعنی بربادی ہو تمہاری، کیا اس کام کے لئے تم نے ہمیں جمع کیا تھا؟ اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی، اور اس میں پہلے تو ابولہب کو بددعا دی گئی ہے کہ بربادی (معاذاللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ ہاتھ ابو لہب کے برباد ہوں (عربی محاورہ میں ہاتھوں کی بربادی کا مطلب اِنسان کی بربادی ہی ہوتا ہے) پھر فرمایا گیا ہے کہ وہ بربادی ہو ہی گیا یعنی اُس کی بربادی اتنی یقینی ہے جیسے ہو ہی چکی، چنانچہ جنگ بدر کے سات دن بعد اسے طاعون جیسی بیماری ہوئی جسے عدسہ کہتے ہیں، عرب کے لوگ چھوت چھات کے قائل تھے اور جسے ’’عدسہ‘‘ کی بیماری ہوتی، اُسے ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے، چنانچہ وہ اسی حالت میں مرگیا، اور اُس کی لاش میں سخت بدبو پیدا ہوگئی، یہاں تک کہ لوگوں نے کسی لکڑی کے سہارے سے اسے ایک گڑھے میں دفن کیا۔ (روح المعانی)۔
بھڑکتے شعلے کو عربی میں ’’لہب‘‘ کہتے ہیں، ابو لہب بھی اُس کو اس لئے کہتے تھے کہ اُس کا چہرہ شعلے کی طرح سرخ تھا۔ قرآنِ کریم نے یہاں دوزخ کے شعلوں کے لئے یہی لفظ استعمال کرکے یہ لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ ُاس کے نام میں بھی شعلے کا مفہوم داخل ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورت کا نام بھی سورۃ اللہب ہے۔
ابو لہب کی بیوی اُمِّ جمیل کہلاتی تھی، اور وہ بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی دُشمنی میں اپنے شوہر کے ساتھ برابر کی شریک تھی، بعض روایتوں میں ہے کہ وہ رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے دار لکڑیاں بچھا دیا کرتی تھیں، اور آپ کو طرح طرح ستایا کرتی تھی۔
4: اس کا مطلب بعض مفسرین نے تو یہ بتایا ہے کہ وہ اگرچہ ایک باعزت گھرانے کی عورت تھی، لیکن اپنی کنجوسی کی وجہ سے ایندھن کی لکڑیاں خود ڈھو کر لاتی تھی، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں جو کانٹے دار لکڑیاں بچھاتی تھی، اس کی طرف اشارہ ہے۔ ان دونوں صورتوں میں لکڑیاں ڈھونے کی یہ صفت دُنیا ہی سے متعلق ہے۔ اور بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ یہ اُس کے دوزخ میں داخلے کی حالت بیان فرمائی گئی ہے، اور مطلب یہ ہے کہ وہ دوزخ میں لکڑیوں کا گٹھڑا اُٹھائے داخل ہوگی۔ قرآنِ کریم کے الفاظ میں دونوں معنیٰ ممکن ہیں، اور ہم نے جو ترجمہ کیا ہے، اس میں بھی دونوں تفسیروں کی گنجائش موجود ہے۔
پہلی تفسیر کے مطابق جب یہ عورت لکڑیاں ڈھو کر لاتی تو اُن کو مونجھ کی رسّی سے باندھ کر رسی کو اپنے گلے میں لپیٹ لیتی تھی۔ اور دُوسری تفسیر کے مطابق یہ بھی دوزخ میں داخلے کی کیفیت بیان ہو رہی ہے کہ اُس کے گلے میں مونجھ کی رسّی کی طرح طوق پڑا ہوا ہوگا۔ واللہ سبحانہ اعلم۔
JazakAllah for reading
If you like it do turn on notification for new posts۔
جزاک اللہ خیراً کثیرا ♥️
ویری گوڈ۔
ReplyDelete