Asma ul husna, Names of Allah, Alrehman , Rehman name of Allah, Al-Raheem, Raheem,Al-Qudoos, Qudoos name of Allah, Qualities of Allah, اسماء الحسنٰی ، الرحمٰن الرحیم القدوس ، اللّٰہ کی صفات

 اسماء الحسنٰی کورس




Asma ul husna, Names of Allah, Alrehman , Rehman name of Allah, Al-Raheem, Raheem,Al-Qudoos, Qudoos name of Allah, Qualities of Allah, اسماء الحسنٰی ، الرحمٰن الرحیم القدوس ، اللّٰہ کی صفات 



الرحمٰن


سبق نمبر 1


الرحمن الرحمن کا لفظ فعلان کے وزن پر ہے۔ سادہ الفاظ میں اس بات کا مطلب یہ ہے کہ عربی میں الفاظ کے وزن ہوتے ہیں۔ جیسے انگریزی میں ہم اگر کسی درب کے آخر میں ای ڈی“ لگا دیں تو اس میں ماضی میں کر چکنے کا معنی شامل ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی عربی میں ہم الفاظ کا وزن دیکھتے ہیں۔ یہ وزن ماضی کا ہے، حال کا ہے، فاعل کا ہے یا مفعول کا۔ ایسے ہی ہر لفظ اپنے وزن کے مطابق مطلب دیتا ہے۔ جیسے ایک لفظ ہے قتل۔ اگر اس کو فاعل کے وزن پر لائیں تو بنے گا قاتل۔ اگر مفعول کے وزن پر لائیں تو ہنے کا منتول۔ دونوں صورتوں میں معنی بدل گیا۔ اب آپ نے جب بھی وزن کے بارے میں پڑھنا ہے تو یاد رکھنا ہے کہ وزن جاننا ضروری ہے لفظ کو سمجھنے کے لیے۔ یہ واحد ٹکنیکی بات تھی جو ہم اس کورس میں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سب کچھ آسان اور سادہ زبان میں ہو گا ان شاء اللہ۔

رحمن کا لفظ فعلان کے وزن پر ہے۔ یہ مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی بہت بہت زیادہ ہونے کا صیغہ ۔ اس پر اترنے والے الفاظ میں بہت زیادہ ہونے کا معنی پایا جاتا ہے۔

رحمان کا لفظ نکلا ہے رحم سے۔ رحم کہتے ہیں ماں کی کوکھ کو۔ وہاں جہاں ایک بچہ جنم لیتا ہے۔ بہن بھائیوں کو رقم کے رشتے اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کا آپس کا تعلق ماں کے رحم کے ایک ہونے سے بنا ہوتا ہے۔ اسی طرح رحم کہتے ہیں خونی رشتوں کو۔ یہ معافی دینے اور ہمدردی دکھانے کو بھی کہتے ہیں۔ کسی کو چھوڑ دینا۔ سخت غصہ ہونے کے باوجود اس کو جانے دینا۔ معاف کر دینا۔ رحم اچھی قسمت اور نعمتوں کو بھی کہتے ہیں۔ کسی پہ رحم کرنا یعنی اس کو بہت انچی ہمتیں عطا کرنا۔

رحمان مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی وہ ذات جس میں بہت بہت رحم پایا جاۓ۔ بہت معافی اور بہت ہمتیں عطا کرنے کی خوبی پائی جائے۔

رحمن وہ نام ہے جو ہمیشہ اللہ تعالی کے لیے ہی آتا ہے۔ الرحمن۔ وہ جو بہت بہت مہربان بہت بہت رحم کرنے والا ہے۔

اور ہم کیا سمجھتے ہیں اللہ تعالی کون ہے؟ آپ جو اس وقت یہ سبق پڑھ رہے ہیں، آپ کے نزدیک اللہ تعالی کون ہے؟ ہم نے اللہ کو ایک ایسا استاد سمجھ لیا ہے نعوذ باللہ جو ہر منٹ ہمارے نمبر کاٹنے کے لیے تیار ہے۔ بس اسے حرام حلال کی پرواہ ہے۔ وہ بس یہی دیکھتا ہے کہ ہم نے گناہ کیا اور وہ ہماری ساری نیکیوں پر کانٹا بھیر دیتا ہے۔ ہم نے اللہ تعالی کو اپنے جیسا سمجھا ہوا ہے۔ ذرا سی بات پر سب کچھ ملیامیٹ کر دینے والا۔ ہم کتنے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ اللہ ہم سے ناراض ہے کیونکہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اللہ ایک غصہ کرنے والا، ہر وقت ہمارے گناہوں پر نظر رکھنے والا بیج ہے۔ ہم اللہ میں خود کو دیکھتے ہیں۔ ایسے انسان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی ایسا نبی

اللہ تعالی کون ہے؟

اللہ تعالی میرا اور آپ کا رب ہے۔ وہ جس کے اندر بہت بہت رحم ہے۔ اسی رقم اور محبت کی وجہ سے اس نے آپ کو جب دنیا میں بھیجا تو اس نے آپ کو دو انسانوں کے حوالے کر کے ان کا نام ماں باپ رکھا۔ جس اللہ سے آپ اب واقف ہوۓ ہیں وہ آپ کے ساتھ آپ کی پیدائش سے بھی پہلے سے ہے۔ وہ ازل سے آپ کے ساتھ ہے۔ آپ تب سے اس کی نگاہ میں ہیں۔ وہ آپ کی ساری کہانی کا گواہ ہے۔

آپ کیسے بڑے ہو گئے؟ کیونکہ وہ اللہ ساتھ تھا۔ اس نے ایک پلان کے تحت آپ کو ماں باپ کے حوالے کیا اور پھر ان کے دل میں آپ کے لیے محبت ڈالی۔ نہ ڈالی ہوتی تو کون رکھتا ہے کسی کا خیال؟ اور یہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ بڑے ہوگئے ہیں۔ اس نے آپ کو جیسا بنایا تھا۔ آپ ویسے ہی ہیں۔ ایک کمزور وجود جس کو اپنا اچھا برا نہیں معلوم۔
آپ کو کیا لگتا ہے ؟

آپ کو کیا لگتا ہے آپ ایک گناہ کر کے آئیں گے اور اللہ تعالی آپ سے نفرت کرے گا؟ پس اب آپ دیکارے ہوۓ ہوگئے؟ نہیں۔ آپ کا رب آپ سے نفرت نہیں کرتا کہ اس نے آپ کو چھوڑ رکھا ہے۔ اس کے نزدیک آپ ایک کمزور انسان ہیں۔ وہ آپ کے گناہ دیکھ رہا ہے لیکن وہ آپ کی کوشش بھی دیکھتا ہے۔ آپ اس سے بار بار وعدہ کرتے ہیں، ایک بری عادت چھوڑنے کا، ایک غلط انسان کو زندگی سے نکالنے کا، ایک نیک عادت ڈالنے کا، ایک بہت توڑنے کا، آپ اس سے بار بار وعدے کر کے پھر ڈھے جاتے ہیں۔ اگر وہ صرف بیج ہوتا تو آپ کا رزلٹ دیکھتا۔ اینڈ رزلٹ۔ لیکن وہ رحمان ہے۔ اس میں اتنا رحم بھرا ہے کہ وہ آپ کی نیت اور کوشش دونوں دیکھتا ہے۔ پھر کیا ہو گیا جو آپ بار بار ہار جاتے ہیں؟ اس کا نام ہی رحمان ہے۔ وہ جو سب کچھ دیکھنے کے باوجود نظر انداز کر دیتا ہے۔ وہ جو ہر چیز معاف کر دیتا ہے۔ سب کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

اللہ رحمان ہے۔ بہت مہربان۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ وہی ہے جو ہر گناہ کے باجود معافی دیتا ہے۔ وہی ہے جو ہر نافرمانی کے باوجود نعمت دیتا ہے۔ یہ شیطان ہے جو ہمیں ایک گناہ کے بعد ہے کہ چلو بھئی تم اللہ کے بندوں کی لسٹ سے آؤٹ ہوگئے ہو اب کیا کروگے روزے رکھ کے؟ نماز پڑھ کے؟ سب کچھ چھوڑ دو۔ اور آپ چھوڑ دیتے ہیں؟ کیوں؟ اللہ نے تو نہیں کہا آپ اب اس کے بندے نہیں رہے۔ اس نے تو نہیں دھتکارا آپ کو۔ کیا بجلی گھری آپ پہ ؟ کیا زمین پھٹ گئی؟ کیا اس کا عذاب آگیا؟ نہیں۔ آپ نے ایک گناہ کیا۔ جو کہ نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن ہو گیا۔ اب کیا اس کا گلٹ لے کر بیٹھے رہیں گے؟ نماز روزہ صدقہ سب چھوڑ دیں گے کہ بھئی ہم منافق ہوں گے اگر اب بھی نماز پڑھی۔ یہ شیطان کا ہرکاوہ ہے۔ ہوشیار ہو جائیں۔
گناہ ہوا کو معافی مانگیں اور کوئی نیکی کریں۔ یہ اللہ کے بندوں کا وطیرہ ہے۔ گناہ سب سے ہوتے ہیں۔ انکل آئیں اس کمیٹی سے کہ ایک مسلمان پر فیکٹ مسلمان کو کہتے ہیں۔ نہیں۔ کوئی اسکالر ہو یا موادی، سب گناہ کرتے ہیں۔ مومن وہ ہے جس کو اپنے گناہ کا گلٹ ہو ، وہ تو بہ کرے اور کوئی نیکی کر ڈالے۔ نیکیاں گناہوں کو مٹاتی ہیں۔

اپنے رب کی طرف واپس آجائیں۔ نیکی کریں اور اس سے معافی مانگ لیں کیونکہ وہ رحمان ہے۔ اس کی رحمت اور معانی آپ کے لیے ہی ہے۔ ان شاء اللہ ۔


الرحيم


آج کا لفظ ہے الرحیم

اس کا مطلب ہے بہت بہت رحم کرنے والا۔ اس کا مادہ بھی وہی ہے جو رحمن کا ہے۔ رحم۔ یہ بھی رقم سے نکلا ہے۔ لیکن اس کا وزن مختلف ہے۔ اس کا وزن فعیل ہے۔ یعنی کسی کام کو بار بار کرنے والا۔ اس سے اس کا مطلب بنتا ہے بہت بہت دفعہ کرنے والا۔

اللہ تعالی کا دوسرا صفاتی نام جو ہم پڑھنے جارہے ہیں، وہ ہے رحیم۔ یعنی وہ جو بار با رحم فرماتا ہے۔ وہ جس کی فطرت میں اتنا رحم ہے کہ وہ انسان کی بہت سی باتیں بار بار نظر انداز کر دیتا

ہے۔ وہ رب جو ایک کے بعد ایک مہربانی کرتا ہے قطع نظر اس سے کہ آپ اس کی نافرمانی

کرتے ہیں یا اطاعت۔

رقم کیا ہے؟ رحم ماں کے جسم کا وہ حصہ ہے جو ایک کمزور سے وجود کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کو کھلا تا پلاتا ہے۔ اور اس کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔ اور وہ اس سے کوئی توقع نہیں رکھتا۔ وہ کسی بدلے کی تمنا کے بغیر اس کا تب تک خیال رکھتا ہے جب تک اسے ماں کے رحم میں رہتا ہے۔ وہ وجود ماں کے جسم کو تکلیف دیتا ہے لیکن ماں اس تکلیف کا بدلہ اس ننھے وجود سے نہیں لیتی۔ رحم کا سارا فلسفہ ہی یہی ہے کہ کسی کی دی گئی تکلیف کو نظر انداز کر کے اس کے ساتھ مہربانی کرنا۔

دیکھا جاۓ تو ہم سب اس دنیا سے کیا مانگتے ہیں؟ ہم رحم مانگتے ہیں۔ ہم حالات سے رحم ما نگلتے ہیں۔ اپنے گھر والوں اور کولیز سے رحم مانگتے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں اور اپنے پاس سے رحم مانگتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر رحم کیا جاۓ۔ لوگ ہمیں مارجن دیں۔ ہمارے گھر والے ہمیں تھیں اور ہماری کی گئی خطاؤں کو درگزر کر جائیں۔ ہم سے ہر وقت حساب نہ مانگا کریں۔
ہم انسان ہیں۔ ہم سے روز غلطیاں ہوتی ہیں۔ ہم بس اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا والے ہماری غلطیوں نہیں کٹہرے میں نہ کھٹرا کیا کریں۔ بلکہ در گزر کر جایا کریں۔ معاف کر دیا کریں۔ کوئی تو ہمیں سمجھا کرے۔ کوئی تو ہمارے محنت اور کوشش دیکھے۔ ہمیں غصہ نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن ہم پٹ پڑے۔ ہمیں وہ غلط کام نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن ہو گیا۔ ہم خود کو روک نہ سکے۔ پھر کیا ہو تا ہے ؟ جو دنیا والا اس کا گواہ ہوتا ہے، وہ ہمیں بیچ کر تا ہے۔ نا پسند کرتا ہے۔

دنیا والوں کے اندر نہ رحم ہے نہ در گزر۔ یہ وہ خوبصورت جذبہ ہے جس سے دنیا کے اکثر لوگ عاری ہیں۔ یہ اللہ تعالی کی صفت ہے۔ یہ اللہ تعالی کی خوبی ہے۔ اس کا رحم اس کے غصے سے بڑا ہے۔ لوگوں کو قصہ ان کے رحم سے بڑا ہوتا ہے۔

اگر آپ کو رحم چاہیے تو یہ دنیا والوں سے نہیں ملے گا۔ دنیا والے نہ ہماری غلطیاں معاف کریں گے۔ نہ ہمیں پناہ دیں گے۔ نہ وہ ہمیں جھیں گے ۔ دنیا والے غصہ کریں گے ، ہمدردی نہیں۔ سمجھیں گے ۔ گے، دنیا والے رحم نہیں کرتے۔ نہ وہ ہماری خطاؤں سے صرف نظر کرتے ہیں۔

یہ بس اللہ تعالی کرتا ہے۔ یہ صرف اس کی خوبی ہے۔ وہ سراپا رحم ہے۔ آپ جب بھی غلطی کریں گے آپ کو معافی صرف اس کے پاس لے گیا۔ آپ جب بھی تھک کے آئیں گے ، صرف اس کی چوکھٹ پر آپ کو پناہ ملے گی۔ جب بھی دنیا آپ کو تھکاۓ گی، صرف وہی رب آپ کو واپس قبول کرے گا۔ جو ہمارے گناہ ہمارے رب کو معلوم ہوتے ہیں، اگر دنیا والوں کو ہو جائیں تو لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں۔ لیکن صرف اللہ تعالی ہے جو انسان کو واپس قبول کر لیتا ہے اور نئے سرے سے اسٹارٹ کرنے دیتا ہے۔
اس کو کہتے ہیں رحم۔ تمارا رب سراپا رحم ہے۔ اسی کے پاس سے رحمت ملے گی ہمیں۔ اس کو دنیا والوں کے پاس نہ تلاش کریں نہ ان سے توقع کریں۔ پس اللہ تعالی کے پاس واپس چلے جائیں۔ آپ سے جو بھی ہوا ہے ، سب معاف ہو جائے گا اور اس کے پاس سے معاف ہو گا۔ ان شاء الله

القدوس


ہمارا آج کا اسم الحسنی ہے "القدوس“۔ قدوس اللہ تعالی کا صفاتی نام ہے جس کا مادہ ”قدس“ ہے۔ قدس سے مقدس، تقدس، قدی، جیسے الفاظ لکھے ہیں۔

قدس تین حروف (ق و س) سے بنا ہے۔ عربی میں (سب نہیں مگر عموما الفاظ تین حروف سے بنتے ہیں۔ اس کو مادہ کہتے ہیں۔ انہی حروف میں کچھ سابقے لاحقے جمع کر دینے سے لفظ کا مطلب بدلتا جاتا ہے۔ جیسے ایک مادہ ہے مقتل۔ کسی کو مارنا۔ اس سے قاتل بنتا ہے اور مقتول بھی۔ دونوں قتل سے نکلے ہیں لیکن مطلب فرق ہیں کیونکہ ان کے وزن فرق ہیں۔
قاتل کا وزن ہے فاعل (کام کرنے والا) اور مقتول کا وزن ہے مفعول (جس پہ کام کیا جاۓ۔ ) ایسے ہی قتال یعنی بہت قتل عام کرنا جیسے جنگ میں کیا جائے۔ اس کا وزن مختلف ہے۔ ای طرف قدس کے مادے سے بہت سے الفاظ بنتے ہیں جیسے مقدس (مفعل) اور تقدس ( تفعل)۔

قدوس بھی اس مادے سے نکلا ہے۔ اگر آپ کو مادے والی بات سمجھ میں نہیں آئی تو بھی کوئی بات نہیں۔ علم کا حق ہے کہ اسے ادب سے پڑھ لیا جاۓ۔ یہ ادب جس سے آپ نہ سمجھ میں آنے والی بات بھی پڑھ لیں گے نام یہ ادب آپ پر سمجھ کے دروازے کھولے گا۔ سو اسی تلمیکی باتیں بس پڑھ لیا کریں۔ یہ دل میں جذب خود بخود ہو جائیں گی۔

قدس (ق وس) کا مطلب ہے زمین میں دور تک چلے جانا۔ یہ اس کا لغوی معنی ہے۔ اس کا اصطلاحی معنی ہے پاک ہوتا۔ صاف ہونا۔ بابرکت ہوتا۔ کسی کا بہت ادب کرنا۔ کسی کے مقدس ہونے کا مطلب ہے کہ اس کا تعلق خدا تعالی سے ہے یعنی وہ بہت پاک بہت بابرکت ہے۔ انگریزی میں اسے Holy کہتے ہیں۔
قدوس فحول کے وزن پر ہے۔ فعول کے وزن والے الفاظ میں کسی کام کے بہت بہت کرنے کا ذکر ہوتا ہے۔ جیسے شکر سے شکور۔ بہت بہت ؟ ت فکر کرنے والا۔ غفر سے غفور۔ بہت بہت معاف کرنے والا۔ صبر سے صبور ۔ سمجھ میں آیا؟ شاکر، غافر، صابر ہوتے ہیں نارمل لیول پہ شکر ، معاف اور صبر کرنے والے لیکن جب یہ لفظ فعول کے وزن پہ جا کے مشکور، غفور اور صبور بنے تو ان کا معانی بنا بہت بہت زیادہ ان کاموں کو کرنے والے۔ ٹھیک؟

قدوس ہے وہ جو بہت بہت پاک ہو۔ جو بہت بہت ادب و احترام کے لائق ہو۔ وہ جو اتنا پاک ہو کہ اس کے مقابلے میں کوئی نہ ہو اور یہی وہ مطلب ہے جس پر آج آپ نے غور کرنا ہے۔

جس رب کو میں اور آپ صرف ایک بیج سمجھتے ہیں ، جو ہماری ذرا سی بات پہ ہمیں بج کر کے ہمارے نمبر کاٹنے کو تیار رہتا ہے، وہ رب دراصل ایسا ہے ہی نہیں۔ ہم نے بھی بیٹھ کے اس رب کے ناموں پر غور ہی نہیں کیا ورنہ ہم بہت پہلے جان جاتے کہ ہمارا رب بہت پاک، بہت برتر ہے۔

وہ پاک ہے ان تمام انسانی خواص سے۔ ہم انسان ہیں اور ہم سے روز غلطیاں ہوتی ہیں۔ یہ کسی کو کوئی غلط کام کرتے دیکھ کے اس سے نفرت کرنا، اس سے خفا ہو جانا اور اس سے اپنے فیورز روک دینا یہ انسانی خواص ہیں۔ ہم کسی کی کوئی بری عادت دیکھیں یا اگر کسی کی کوئی سوشل میڈ یا پوسٹ ہی پڑھ لیں جس میں اس نے ہماری مرضی کے خلاف بات کی ہو، تو ہم فورا اسے اپنی فیورٹ کی لٹ سے آؤٹ کر دیتے ہیں۔ اور اس کو فیور دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارا دل اس کی طرف سے برا ہو جاتا ہے۔

اللہ تعالی ایسا نہیں کرتا۔ وہ اپنی انسانی باتوں سے بہت اوپر ہے۔ وہ آپ کی ذرا سی حکم عدولی پر آپ کو آؤٹ نہیں کر دیتا۔ جب تک آپ کا سانس جاری ہے ، وہ ہر روز آپ کو موقع دیتا ہے۔ واپس آنے کا۔ پلٹ کے اس کی چوکھٹ پہ آجانے کا۔ کیونکہ آخر میں تھک کے ہم سب نے ای رب کے پاس ہی آنا ہو تا ہے۔ دنیا جب ہمیں تھکا دیتی ہے تو ہم اسی رب کے پاس واپس آتے ہیں لیکن ہم میں سے کچھ رک جاتے ہیں۔
ہم سوچتے ہیں کہ نہیں ہمارے گناہ بہت زیادہ ہیں۔ اللہ تعالی تو بس ہمیں شدید ناپسند کر تا ہو گا۔ لیکن یہ تو انسانی عادت ہے۔ ہمارا رب ان چیزوں سے پاک ہے۔

دو پرفیکٹ ہے۔ ہر قسم کے عیب سے پاک ہے۔ وہ وعدے پورے کرتا ہے۔ یہ اپنی بات سے پھر جانا انسانی خاصیت ہے۔ یہ غلط اور ٹیڑھی میڑھی بات کرنا یہ اس کا شیوہ نہیں ہے۔ وہ ایک بات کرتا ہے اور صاف بات کرتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ وہ ہر کسی کا ہر گناہ معاف کر سکتا ہے، انسان کے صرف توبہ کرنے کی دیر ہے، تو ہیں۔ اس کی بات میں شک کیوں کرتے ہیں ہم جب وہ کہتا ہے کہ اس کی رحمت اس کے غصے سے کہیں بڑی ہے تو بس۔ ہم یقین کیوں نہیں کرتے؟
آپ جو یہ پڑھ رہے ہیں، اگر آپ کو اللہ نے یہ پڑھنے کی توفیق دی ہے تو اس لیے کہ آپ کے دل تک یہ میسیج پہنچ جاۓ کہ آپ کا رب آپ سے ناراض نہیں ہے، نہ ہی اس نے آپ کو نچوڑ رکھا ہے۔ وہ انسانوں کے جیسا نہیں ہے۔ وہ رب ہے۔ آپ کا خالق اور آپ کا مالک۔ وہ آپ کو بنا کے بھول نہیں کیا بلکہ آپ آج بھی اس کی نظر میں ہیں ۔ آپ نے دل سے اس بات کو نکال دینا ہے کہ آپ کے گناہ آپ کے اور اس کے درمیان آگئے ہیں اور اب یہ دیوار کبھی نہیں کرے گی۔ نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ دیوار جتنی اونچی ہو جاۓ، اس کو آپ کا ایک دفعہ سر جھکا کے چلے آتا ہی گرادے گا۔ آپ نہ آئیں تب بھی اللہ تعالی نے تو سارے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ اس نے تو آپ کا رزق نہیں روکا نہ سانس بند کی ہے۔ اس نے آپ کے سارے راستے کھلے رکھے ہیں۔

اور وانی کے سارے راستے آپ کے رب کی طرف ہی جاتے ہیں۔


Thanks for reading . If you like it do share it with others as well
JazakAllah ♥️
Do press the bell icon so that you can get the notification for new posts. 
جزاک اللہ خیراً کثیرا ♥️









Comments

Popular posts from this blog

Sacred months in islam, hurmat waly maheenay, month rajab , muharam rabi ul awal, zeqaad,حرمت والے مہینے

Prophet Muhammad grand father, ,Prophet Muhammad SAW ancestors, History of tribe Quraish, Prophet Muhammad's SAW lineage, حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلے کی تاریخ ,