Surah nasar translation in English and Urdu, Surah nasar tafseer, Surah Al-Nasar, سورت نصر ترجمہ اور تفسیر
Surah Nasar
Surah nasar translation in English and Urdu, Surah nasar tafseer, Surah Al-Nasar, سورت نصر ترجمہ اور تفسیر
Surah Nasar Translation in English and Urdu
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾
جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے ۔
When the victory of Allah has come and the conquest,
وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲
اور تو لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لے ۔
And you see the people entering into the religion of Allah in multitudes,
فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕ ؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ٪﴿۳﴾
تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے ۔
Then exalt [Him] with praise of your Lord and ask forgiveness of Him. Indeed, He is ever Accepting of repentance.
Surah Nasar tafseer
سورة النصر حاشیہ نمبر : 1
فتح سے مراد کسی ایک معرکے میں فتح نہیں ، بلکہ وہ فیصلہ کن فتح ہے جس کے بعد ملک میں کوئی طاقت اسلام سے ٹکر لینے کے قابل باقی نہ رہے اور یہ امر واضح ہوجائے کہ اب عرب میں اسی دین کو غالب ہوکر رہنا ہے ۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد فتح مکہ لی ہے ۔ لیکن فتح مکہ 8ھ میں ہوئی ہے اور اس سورہ کا نزول 10 ھ کے آخر میں ہوا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت سراء بنت بنہان کی ان روایات سے معلوم ہوتا ہے جو ہم نے دیباچے میں نقل کی ہیں ۔ علاوہ بریں حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول بھی اس تفسیر کے خلاف پڑتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی سب سے آخری سورۃ ہے ۔ کیونکہ اگر فتح سے مراد فتح مکہ ہو تو پوری سورہ توبہ اس کے بعد نازل ہوئی تھی ، پھر یہ سورۃ آخری سورۃ کیسے ہوسکتی ہے ۔ بلا شبہ فتح مکہ اس لحاظ سے فیصلہ کن تھی کہ اس نے مشرکین عرب کی ہمتیں پست کردی تھیں ، مگر اس کے بعد بھی ان میں کافی دم خم باقی تھا ۔ طائف اور حنین کے معرکے اس کے بعد ہی پیش آئے اور عرب پر اسلام کا غلبہ مکمل ہونے میں تقریبا دو سال صرف ہوئے ۔
سورة النصر حاشیہ نمبر : 2
یعنی وہ زمانہ رخصت ہوجائے جب ایک ایک دو دو کر کے لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے اور وہ وقت آجائے جب پورے پورے قبیلے ، اور بڑے بڑے علاقوں کے باشندے کسی جنگ اور کسی مزاحمت کے بغیر از خود مسلمان ہونے لگیں ۔ یہ کیفیت 9 ھ کے آغاز سے رونما ہونی شروع ہوئی جس کی وجہ سے اس سال کو سال وفود کہا جاتا ہے ۔ عرب کے گوشے گوشے سے وفد پر وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور اسلام قبول کر کے آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ 10 ھ میں جب حضور حجۃ الوداع کے لیے تشریف لے گئے اس وقت پورا عرب اسلام کے زیر نگیں ہوچکا تھا اور ملک میں کوئی مشرک باقی نہ رہا تھا ۔
سورة النصر حاشیہ نمبر : 3
حمد سے مراد اللہ تعالی کی تعریف و ثنا کرنا بھی ہے اور اس کا شکر ادا کرنا بھی ۔ اور تسبیح سے مراد اللہ تعالی کو ہر لحاظ سے پاک اور منزہ قرار دینا ہے ۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اپنے رب کی قدرت کا یہ کرشمہ جب تم دیکھ لو تو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو ، اس میں حمد کا مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کامیابی کے متعلق تمہارے دل میں کبھی اس خیال کا کوئی شائبہ تک نہ آئے کہ یہ تمہارے اپنے کمال کا نتیجہ ہے ، بلکہ اس کو سراسر اللہ کا فضل و کرم سمجھو ، اس پر اس کا شکر ادا کرو ، اور قلب و زبان سے اس امر کا اعتراف کرو کہ اس کامیابی کی ساری تعریف اللہ ہی کو پہنچتی ہے ۔ اور تسبیح کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اس سے پاک اور منزہ قرار دو کہ اس کے کلمے کا بلند ہونا تمہاری کسی سعی و کوشش کا محتاج یا اس پر منحصر تھا ۔ اس کے برعکس تمہارا دل اس یقین سے لبریز رہے کہ تمہاری سعی و کوشش کی کامیابی اللہ کی تائید و نصرت پر منحصر تھی ، وہ اپنے جس بندے سے چاہتا اپنا کام لے سکتا تھا اور یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے یہ خدمت تم سے لی اور تمہارے ہاتھوں اپنے دین کا بول بالا کرایا ۔ اس کے علاوہ تسبیح ، یعنی سبحان اللہ کہنے میں ایک پہلو تعجب کا بھی ہے ۔ جب کوئی محیر العقول واقعہ پیش آتا ہے تو آدمی سبحان اللہ کہتا ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کی قدرت سے ایسا حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے ورنہ دنیا کی کسی طاقت کے بس میں نہ تھا کہ ایسا کرشمہ اس سے صادر ہوسکتا ۔
سورة النصر حاشیہ نمبر : 4
یعنی اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اس نے تمہارے سپرد کی تھی اس کو انجام دینے میں تم سے جو بھول چوک یا کوتاہی بھی ہوئی ہو اس سے چشم پوشی اور درگزر فرمائے ۔ یہ ہے وہ ادب جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے ۔ کسی انسان سے اللہ کے دین کی خواہ کیسی ہی بڑی سے بڑی خدمت انجام پائی ہو ، اس کی راہ میں خواہ کتنی ہی قربانیاں اس نے دی ہوں اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانے میں خواہ کتنی ہی جانفشانیاں اس نے کی ہوں ، اس کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ آنا چاہیے کہ میرے اوپر میرے رب کا جو حق تھا وہ میں نے پورا کا پورا ادا کردیا ہے ، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کرسکا ، اور اسے اللہ سے یہی دعا مانگنی چاہیے کہ اس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی بھی مجھ سے ہوئی ہو اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرمالے ۔ یہ ادب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا گیا جن سے بڑھ کر خدا کی راہ میں سعی و جہد کرنے والے کسی انسان کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ، تو دوسرے کسی کا یہ مقام کہاں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو کوئی بڑا عمل سمجھے اور اس غرے میں مبتلا ہو کہ اللہ کا جو حق اس پر تھا وہ اس نے ادا کردیا ہے ۔ اللہ کا حق اس سے بہت بالا و برتر ہے کہ کوئی مخلوق اسے ادا کرسکے ۔
اللہ تعالی کا یہ فرمان مسلمان کو ہمیشہ کے لیے یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی کسی عبادت و ریاضت اور کسی خدمت دین کو بڑی چیز نہ سمجھیں ، بلکہ اپنی جان راہ خدا میں کھپا دینے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہیں کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ۔ اسی طرح جب کبھی انہیں کوئی فتح نصیب ہو ، اسے اپنے کسی کمال کا نہیں بلکہ اللہ کے فضل ہی کا نتیجہ سمجھیں اور اس پر فخر و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے رب کے سامنے عاجزی کے ساتھ سر جھکا کر حمد و تسبیح اور توبہ و استغفار کریں ۔
Comments
Post a Comment