Surah kahf and it's importance, Translation and tafseer of Surah kahf,First 10 ayat of Surah kahf, سورتہ کہف کی فضیلت
Surah kahf and Importance of first 10 ayat of Surah kahf, Translation and tafseer of Surah kahf
Importance shown through hadees of surah kahf
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’ جس ( مسلمان ) نے سورہ کہف کی پہلی دس آیات حفظ کر لیں ، اسے دجال کے فتنے سے محفوظ کر لیا گیا ۔‘‘
دجال اور فتنہ دجال سے حفاظت
دجال کا نزول حدیث پاک سے ثابت
حضرت نواس بن سمعان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو فرمایا :’’ اگر وہ میری موجودگی میں نکل آیا تو پھر میں تمہاری طرف سے اس سے جھگڑا کروں گا ، اور اگر وہ اس وقت نکلے جب کہ میں تم میں نہ ہوں تو پھر ہر شخص اپنی خاطر اس سے جھگڑا کرے گا ، اور اللہ ہر ایک مسلمان پر محافظ و معاون ہے ، بے شک وہ (دجال) جوان ہو گا ، اس کے بال گھونگریالے ہوں گے ، اس کی آنکھ اٹھی ہوئی ہو گی گویا میں اسے عبدالعزی بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں ، تم میں سے جو شخص اسے پا لے تو وہ اس پر سورۂ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے ، کیونکہ وہ تمہارے لیے اس کے فتنے سے امان ہیں ، وہ شام اور عراق کے درمیان ایک راہ پر نکلنے والا ہے ، وہ دائیں بائیں فساد مچائے گا ، اللہ کے بندو ! ثابت رہنا ۔‘‘ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ زمین میں کتنی مدت ٹھہرے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ چالیس دن ، ایک دن سال کی طرح ، ایک (دوسرا) دن مہینے کی طرح ، اور ایک (تیسرا) دن جمعہ (سات دن) کی طرح ہو گا ، جبکہ اس کے باقی ایام تمہارے ایام کی طرح ہوں گے ۔‘‘ ہم نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا وہ دن جو سال کی طرح ہو گا تو کیا اس میں ایک دن کی نماز پڑھنا ہمارے لیے کافی ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں ، بلکہ تم اس کے لیے اس کا اندازہ کر لینا ۔‘‘ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کی زمین پر رفتار کیا ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بارش کی طرح جس کے پیچھے ہوا آتی ہے ، وہ لوگوں کے پاس آئے گا ، انہیں دعوت دے گا تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے ، وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین کو حکم دے گا تو وہ اناج اگائے گی ، ان کے چرنے والے جانور شام کو واپس آئیں گے تو ان کی کوہانیں پہلے سے زیادہ لمبی ، ان کے تھن دودھ سے بھرے ہوں گے اور ان کی کوکھیں باہر نکلی ہوں گی ، پھر وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا ، وہ انہیں دعوت دے گا ، وہ اس کی بات قبول نہیں کریں گے ، وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا تو وہ قحط سالی کا شکار ہو جائیں گے : ان کے ہاتھ اموال سے خالی ہو جائیں گے ، اور وہ ایک ویرانے سے گزرے گا تو اسے کہے گا ، اپنے خزانے نکالو ، تو اس (ویرانے) کے خزانے اس (دجال) کے پیچھے اس طرح چلیں گے جس طرح شہد کی مکھیاں اپنے سرداروں کے پیچھے چلتی ہیں ، پھر وہ بھرپور جوان آدمی کو بلائے گا ، اور تلوار مار کر اس کے دو ٹکڑے کر دے گا ، جس طرح ہدف پر نشانہ بازی کی جاتی ہے ، پھر وہ اس کو بلائے گا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو گا اور چمکتے چہرے کے ساتھ مسکراتا ہوا اپنی اسی پہلی حالت پر ہو جائے گا ۔
10 ayat of Surah kahf
Translation of 10 ayat of Surah kahf
Surat No. 18 Ayat NO. 1
تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی ، اور اس میں کسی قسم کی کوئی خامی نہیں رکھی ،
Surat No. 18 Ayat NO. 2
ایک سیدھی سیدھی کتاب جو اس نے اس لیے نازل کی ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کرے ، اور جو مومن نیک عمل کرتے ہیں ان کو خوشخبری دے کہ ان کو بہترین اجر ملنے والا ہے ،
Surat No. 18 Ayat NO. 3
جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ،
Surat No. 18 Ayat NO. 4
اور تاکہ ان لوگوں کو متنبہ کرے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کوئی بیٹا بنا رکھا ہے ۔
Surat No. 18 Ayat NO. 5
اس بات کا کوئی علمی ثبوت نہ خود ان کے پاس ہے ، نہ ان کے باپ دادوں کے پاس تھا ۔ بڑی سنگین بات ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے ۔ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں ، وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ۔
Surat No. 18 Ayat NO. 6
اب ( اے پیغمبر ! ) اگر لوگ ( قرآن کی ) اس بات پر ایمان نہ لائیں ، تو ایسا لگتا ہے جیسے تم افسوس کر کر کے ان کے پیچھے اپنی جان کو گھلا بیٹھو گے !
Surat No. 18 Ayat NO. 7
یقین جانو کہ روئے زمین پر جتنی چیزیں ہیں ہم نے انہیں زمین کی سجاوٹ کا ذریعہ اس لیے بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے ۔ ( ١ )
Surat No. 18 Ayat NO. 8
اور یہ بھی یقین رکھو کہ روئے زمین پر جو کچھ ہے ، ایک دن ہم اسے ایک سپاٹ میدان بنا دیں گے ۔ ( ٢ )
Surat No. 18 Ayat NO. 9
کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ غار اور رقیم والے لوگ ( ٣ ) ہماری نشانیوں میں سے کچھ ( زیادہ ) عجیب چیز تھے ؟ ( ٤ )
Surat No. 18 Ayat NO. 10
یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی ، اور ( اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے ) کہا تھا کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہم پر خاص اپنے پاس سے رحمت نازل فرمایے ، اور ہماری اس صورت حال میں ہمارے لیے بھلائی کا راستہ مہیا فرما دیجیے ۔
Tafseer of first 10 ayat of Surah kahf
Surat No. 18 Ayat NO. 0
سورۃ الکہف
تعارف
حافظ ابن جریر طبری نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس سورت کا شان نزول یہ نقل کیا ہے کہ مکہ مکرمہ کے کچھ سرداروں نے دو آدمی مدینہ منورہ کے یہودی علماء کے پاس یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجے کہ تورات اور انجیل کے یہ علماء آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہودی علماء نے ان سے کہا کہ آپ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوالات کیجیے۔ اگر وہ ان کا صحیح جواب دے دیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور اگر وہ صحیح جواب نہ دے سکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کا نبوت کا دعوی صحیح نہیں ہے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ ان نوجواں کا وہ عجیب واقعہ بیان کریں جو کسی زمانے میں شرک سے بچنے کے لیے اپنے شہر سے نکل کر کسی غارمیں چھپ گئے تھے۔ دوسرے اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا۔ تیسرے ان سے پوچھیں کہ روح کی حقیقت کیا ہے۔ چنانچہ یہ دونوں شخص مکہ مکرمہ واپس آئے، اور اپنی برادری کے لوگوں کو ساتھ لے کر انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ تین سوال پوچھے۔ تیسرے سوال کا جواب تو پچھلی سورت (85: 17) میں آچکا ہے۔ اور پہلے دو سوالات کے جواب میں یہ سوورت نازل ہوئی جس میں غار میں چھپنے والے نوجوانوں کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے، انہی کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے۔ کہف عربی میں غار کو کہتے ہیں، اصحاب کہف کے معنی ہوئے غار والے اور اسی غار کے نام پر سورت کو سورۃ الکہف کہا جاتا ہے۔ دوسرے سوال کے جواب میں سورت کے آخر میں ذوالقرنین کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے جنہوں نے مشرق ومغرب کا سفر کیا تھا۔
اس کے علاوہ اسی سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ واقعہ بھی بیان فرمایا گیا ہے جس میں وہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس تشریف لے گئے تھے، اور کچھ عرصہ ان کی معیت میں سفر کیا تھا۔ یہ تین واقعات تو اس سورت کا مرکزی موضوع ہیں۔ ان کے علاوہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو خدا کا بیٹا قرار دے رکھا تھا، اس سورت میں بطور خاص اس کی تردید بھی ہے اور حق کا انکار کرنے والوں کو وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں، اور حق کے ماننے والوں کو نیک انجام کی خوشخبری بھی دی گئی ہے۔
سورۃ کہف کی تلاوت کے فضائل احادیث میں آئے ہیں۔ خاص طور پر جمعہ کے دن اس کی تلاوت کی بڑی فضیلت آئی ہے، اور اسی لیے بزرگان دین کا معمول رہا ہے کہ وہ جمعہ کے دن اس کی تلاوت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔
Surat No. 18 Ayat NO. 7
1: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین کے کفر اور معاندانہ طرز عمل سے سخت صدمہ ہوتا تھا، ان آیات میں آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ دنیا تو لوگوں کے امتحان کے لیے بنائی گئی ہے، تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون ہے جو دنیا کی سجاوٹ میں محو ہو کر اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے، اور کون ہے جو اس کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق استعمال کر کے اپنے لیے آخرت کا ذخیرہ بناتا ہے۔ اور جب یہ امتحان گاہ ہے تو اس میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو امتحان میں کامیاب ہوں گے اور وہ بھی جو ناکام ہوں گے۔ لہذا اگر یہ لوگ کفر و شرک کا ارتکاب کر کے امتحان میں ناکام ہورہے ہیں تو اس میں نہ کوئی تعجب کی بات ہے اور نہ اس پر آپ کو اتنا افسوس کرنا چاہئے کہ آپ اپنی جان کو گھلا بیٹھیں۔
Surat No. 18 Ayat NO. 8
2: یعنی جتنی چیزوں سے یہ زمین سجی ہوئی اور بارونق نظر آتی ہے، ایک دن وہ سب فنا ہوجائیں گی، نہ کوئی عمارت باقی رہے گی، نہ پہاڑ اور درخت، بلکہ وہ ایک چٹیل اور سپاٹ میدان میں تبدیل ہوجائے گی۔ اُس وقت یہ حقیقت واضح ہوگی کہ دُنیا کی ظاہری خوبصورتی بڑی ناپائیدار تھی۔ اور یہی وہ وقت ہوگا جب آپ کے ساتھ ضد اور دُشمنی کا معاملہ کرنے والے اپنے بُرے انجام کو پہنچیں گے۔ لہٰذا اگر ان لوگوں کو دُنیا میں ڈھیل دی جا رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُنہیں بد عملی کے باوجود آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ لہٰذا نہ آپ کو زیادہ رنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے، اور نہ ان کے انجام پر فکر مند ہونے کی۔ آپ کا کام تبلیغ ہے، بس اُسی میں اپنے آپ کو مصروف رکھیئے۔
Surat No. 18 Ayat NO. 9
3: ان حضرات کے واقعے کا خلاصہ قرآنِ کریم کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ یہ کچھ نوجوان تھے جو ایک مشرک بادشاہ کے عہد حکومت میں توحید کے قائل تھے۔ بادشاہ نے ان کو توحید پر ایمان رکھنے کی بنا پر پریشان کیا تو یہ حضرات شہر سے نکل کر ایک غار میں چھپ گئے تھے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے ان پر گہری نیند طاری فرمادی، اور یہ تین سو نو(309) سال تک اُسی غار میں پڑے سوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نیند کے دوران اپنی قدرت کاملہ سے ان کی زندگی کو بھی سلامت رکھا، اور اُن کے جسم بھی گلنے سڑنے سے محفوظ رہے۔ تین سو نو سال بعد اُن کی آنکھ کھلی تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی لمبی مدت تک سوتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان کو بھوک محسوس ہوئی تو اپنے میں سے ایک صاحب کو کچھ کھانا خرید کر لانے کے لئے شہر بھیجا، اور یہ ہدایت کی کہ احتیاط کے ساتھ شہر میں جائیں، تاکہ ظالم بادشاہ کو پتہ نہ چل سکے۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا یسا ہوا کہ اس تین سو سال کے عرصے میں وہ ظالم بادشاہ مرکھپ گیا تھا، اور ایک نیک اور صحیح العقیدہ شخص بادشاہ بن چکا تھا۔ یہ صاحب جب شہر میں پہنچے تو کھانا خریدنے کے لئے وہی پُرانا سکہ پیش کیا جو تین سو سال پہلے اس ملک میں چلا کرتا تھا، دُکان دار نے وہ پرانا سکہ دیکھا تو اس طرح یہ بات سامنے آئی کہ یہ حضرات صدیوں تک سوتے رہے تھے۔ بادشاہ کو پتہ چلا تو اُس نے ان لوگوں کو بڑی عزّت اور اکرام کے ساتھ اپنے پاس بلایا، اور بالآخر جب اُن حضرات کی وفات ہوئی تو اُن کی یادگار میں ایک مسجد تعمیر کی۔ عیسائیوں کے یہاں یہ واقعہ ’’سات سونے والوں‘‘ (Seven Sleepers) کے نام سے مشہور ہے۔ معروف مؤرخ ایڈورڈ گبن نے اپنی مشہور کتاب ’’زَوال و سقوطِ سلطنتِ رُوم‘‘ میں بیان کیا ہے کہ وہ ظالم بادشاہ ڈوسیس تھا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں پر ظلم ڈھانے میں بہت مشہور ہے۔ اور یہ واقعہ ترکی کے شہر افسس میں پیش آیا تھا۔ جس بادشاہ کے زمانے میں یہ حضرت بیدار ہوئے، گبن کے بیان کے مطابق وہ تھیوڈوسیس تھا۔ مسلمان مؤرخین اور مفسرین نے بھی اس سے ملتی جلتی تفصیلات بیان فرمائی ہیں، اور ظالم بادشاہ کا نام دقیانوس ذکر کیا ہے۔ ہمارے دور کے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اُردُن کے شہر عمان کے قریب پیش آیا تھا جہاں ایک غار میں کچھ لاشیں اب تک موجود ہیں۔ یہ تحقیق میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’جہانِ دیدہ‘‘ میں بیان کردی ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بات بھی اتنی مستند نہیں ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جاسکے۔ قرآنِ کریم کا اُسلوب یہ ہے کہ وہ کسی واقعے کی اُتنی ہی تفصیل بیان فرماتا ہے جو فائدہ مند ہو۔ اس سے زیادہ تفصیلات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان حضرات کو ’’اصحاب الکہف‘‘ (غار والے) کہنے کی وجہ تو ظاہر ہے کہ اُنہوں نے غار میں پناہ لی تھی۔ لیکن ان کو ’’رقیم‘‘ والے کیوں کہتے ہیں؟ اس کے بارے میں مفسرین کی رائیں مختلف ہیں۔ بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ’’رقیم‘‘ اُس غار کے نیچے والی وادی کا نام ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ’’رقیم‘‘ تختی پر لکھے ہوئے کتبے کو کہتے ہیں، اور ان حضرات کے انتقال کے بعد اُن کے نام ایک تختی پر کتبے کی صورت میں لکھوا دئیے گئے تھے، اس لئے ان کو ’’اصحاب الرقیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تیسرے بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ اُس پہاڑ کا نام ہے جس پر وہ غار واقع تھا۔ واللہ سبحانہ اعلم۔
4: جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان نوجوانوں کے بارے میں سوال کیا تھا، اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اُن کا واقعہ بڑا عجیب ہے۔ اس آیت میں اُنہی کے حوالے سے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے پیشِ نظر یہ واقعہ کوئی بہت عجیب نہیں ہے، کیونکہ اُس کی قدرت کے کرشمے تو بیشمار ہیں۔
جزاک اللہ خیراً کثیرا ♥️
Do leave comment below 👇
jazakaAllah Khair
ReplyDelete