Tafseer Surah Kafiroon in Urdu، tafseer by Mulana Mododi, tafseer of surah kafiroon by Molana Mododi

Tafseer Surah Kafiroon in Urdu







بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحیم ہے 💕

      Surat No. 109 Ayat NO. 1 

قُلۡ يٰۤاَيُّهَا الۡكٰفِرُوۡنَۙ‏

ترجمہ : (اے پیغمبر ان منکران اسلام سے) کہہ دو کہ اے کافرو!

Say: O disbelievers!

 سورة الکافرون حاشیہ نمبر :1

اس آیت میں چند باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں:

 ( ۱ )  حکم اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے کہ آپ کافروں سے یہ بات صاف صاف کہہ دیں ،  لیکن آگے کا مضمون یہ بتا رہا ہے کہ ہر مومن کو وہی بات کافروں سے کہہ دینی چاہیے جو بعد کی آیات میں بیان ہوئی ہے کہ حتی کہ جو شخص کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آیا ہو اس کے لیے بھی لازم ہے کہ دین کفر اور اس کی عبادات اور معبودوں سے اسی طرح اپنی براءت کا اظہار کردے ۔  پس لفظ قُل  ( کہہ دو )  کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ،  مگر حکم حضور کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ آپ کے واسطے سے ہر مومن کو پہنچتا ہے ۔ 

 ( ۲ )     کافر   کا لفظ کوئی گالی نہیں ہے جو اس آیت کے مخاطبوں کو دی گئی ہو ،  بلکہ عربی زبان میں کافر کے معنی انکار کرنے والے اور نہ ماننے والے  ( Unbeliever )  کے ہیں ،  اور اس کے مقابلے میں    مومن    کا لفظ مان لینے اور تسلیم کرلینے والے  ( Believer )  کے لیے بولا جاتا ہے ،  لہذا اللہ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ    اے کافرو    دراصل اس معنی میں ہے کہ    اے وہ لوگو جنہوں نے میری رسالت اور میری لائی ہوئی تعلیم کو ماننے سے انکار کیا ہے   ۔  اور اسی طرح ایک مومن جب یہ لفظ کہے گا تو اس کی مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والے ہوں گے ۔ 

 ( ۳ )  اے کافرو کہا ہے ،  اے مشرکو نہیں کہا ،  اس لیے مخاطب صرف مشرکین ہی نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا رسول ،  اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم و ہدایت کو اللہ جل شانہ کی تعلیم و ہدایت نہیں مانتے ،  خواہ وہ یہود ہوں ،  نصاری ہوں ،  مجوسی ہوں ،  یا دنیا بھر کے کفار و مشرکین اور ملاحدہ ہوں  ۔  اس خطاب کو صرف قریش یا عرب کے مشرکین تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے  ۔ 

 ( ۳ )  منکرین کو اے کافرو کہہ کر خطاب کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کچھ لوگوں کو اے دشمنو یا اے مخاطبو کہہ کر مخاطب کیں  ۔  اس طرح کا خطاب دراصل مخاطبوں کی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ ان کی صفت دشمنی اور صفت مخالفت کی بنا پر ہوتا ہے اور اسی وقت تک کے لیے ہوتا ہے جب تک ان میں یہ صفت باقی رہے ۔  اگر ان میں سے کوئی دشمنی و مخالفت چھوڑ دے ،  یا دوست اور حامی بن جائے تو وہ اس خطاب کا مخاطب نہیں رہتا ۔  بالکل اسی طرح جن لوگوں کو    اے کافرو   کہہ کر خطاب کیا گیا ہے ،  وہ بھی ان کی صفت کفر کے لحاظ سے نہ کہ ان کی ذاتی حیثیت سے ،  ان میں سے جو شخص مرتے دم تک کافر رہے اس کے لیے تو یہ خطاب دائمی ہوگا ،  لیکن جو شخص ایمان لے آئے وہ اس کا مخاطب نہ رہے گا ۔ 

 ( ۵ )  مفسرین میں سے بہت سے بزرگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس سورۃ میں    اے کافرو   کا خطاب قریش کے صرف ان چند مخصوص لوگوں سے تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دین کے معاملے میں مصالحت کی تجویزیں لے لے کر آرہے تھے اور جن کے متلعق اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا تھا کہ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں  ۔  یہ رائے انہوں نے دو وجودہ سے قائم کی ہے ۔  ایک یہ کہ آگے لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ  ( جس کی یا جن کی عبادت تم کرتے ہو اس کی یا ان کی عبادت میں نہیں کرتا )  فرمایا گیا ہے ۔  اور وہ کہتے ہیں کہ یہ قول یہود و نصاری پر صادق نہیں آتا ،  کیونکہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں  ۔  دوسرے یہ کہ آگے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ  (  اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں )  اور ان کا استدلال یہ ہے کہ یہ قول ان لوگوں پر صادق نہیں آتا جو اس سورۃ کے نزول کے وقت کافر تھے اور بعد میں ایمان لے آئے ۔  لیکن یہ دونوں دلیلیں صحیح نہیں ہیں  ۔  جہاں تک ان آیتوں کا تعلق ہے ان کی تشریح تو ہم آگے چل کر کریں گے جس سے معلوم ہوجائے گا کہ ان کا وہ مطلب نہیں ہے جو ان سے سمجھا گیا ہے ۔  یہاں اس استدلال کی غلطی واضح کرنے کے لیے صرف اتنی بات کہہ دینا کافی ہے کہ اگر اس سورہ کے مخاطب صرف وہی لوگ تھے تو ان کے مر کھپ جانے کے بعد اس سورہ کی تلاوت جاری رہنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ اور سے مستقل طور پر قرآن میں درج کردینے کی کیا ضرورت تھی کہ قیامت تک مسلمان اسے پڑھتے رہیں؟ 

 لَاۤ اَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُوۡنَۙ‏

ترجمہ : جن (بتوں) کو تم پوچتے ہو ان کو میں نہیں پوجتا

I worship not that which ye worship;

Surat No. 109 Ayat NO. 2 

 سورة الکافرون حاشیہ نمبر : 2

اس میں وہ سب معبود شامل ہیں جن کی عبادت دنیا بھر کے کفار اور مشرکین کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں ، خواہ وہ ملائکہ ہوں ، جنہوں ، انبیاء اور اولیاء ہوں ، زندہ یا مردہ انسانوں کی ارواح ہوں ، یا سورج ، چاند ستارے ، جانور ، درخت ، دریا ، بت اور خیالی دیویاں اور دیوتا ہوں ۔ اس پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالی کو بھی تو معبود مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین نے بھی قدیم زمانے سے آج تک اللہ کے معبود ہونے کا انکار نہیں کیا ہے ۔ رہے اہل کتاب تو وہ اصل معبود تو اللہ ہی کو تسلیم کرتے ہیں ۔ پھر ان سب لوگوں کے تمام معبودوں کی عبادت سے کسی استثناء کے بغیر براءت کا اعلان کیسے صحیح ہوسکتا ہے جبکہ اللہ بھی ان میں شامل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو معبودوں کے مجموعے میں ایک معبود کی حیثیت سے شامل کر کے اگر دوسروں کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے تو وہ شخص جو توحید پر ایمان رکھتا ہو لازما اس عبادت سے اپنی براءت کا اظہار کرے گا ، کیونکہ اس کے نزدیک اللہ معبودوں کے مجموعے میں سے ایک معبود نہیں بلکہ وہی ایک تنہا معبود ہے ، اور اس مجموعے کی عبادت سرے سے اللہ کی عبادت ہی نہیں ہے اگرچہ اس میں اللہ کی عبادت بھی شامل ہو ۔ قرآن مجید میں اس بات کو صاف صاف کہا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت صرف وہ ہے جس کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کا شائبہ تک نہ ہو ، اور جس میں انسان اپنی بندگی کو بالکل اللہ ہی کے لیے خالص کردے ۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ ۔ لوگوں کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ بالکل یک سو ہوکر ، اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کریں ۔ ( البینہ ۔ 5 ) یہ مضمون بکثرت مقامات پر قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو النساء ، آیات 145 ۔ 146 ۔ الاعراف 29 ۔ الزمر 2 ۔ 3 ۔ 11 ۔ 14 ۔ 15 ۔ المومن 14 ۔ 64 تا 66 ۔ یہی مضمون ایک حدیث قدسی میں بیان کیا گیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بڑھ کر ہر شریک کی شرکت سے بے نیاز ہوں ، جس شخص نے کوئی عمل ایسا کیا جس میں میرے ساتھ کسی اور کو بھی اس نے شریک کیا ہو اس سے میں بری ہوں اور وہ پورا کا پورا عمل اسی کے لیے ہے جس کو اس نے شریک کیا ( مسلم ، مسند احمد ، ابن ماجہ ) پس درحقیقت اللہ کو دو یا تین یا بہت سے خداؤں میں سے ایک قرار دینا اور اس کے ساتھ دوسروں کی بندگی و پرستش کرنا ہی تو وہ اصل کفر ہے جس سے اظہار براءت کرنا اس سورۃ کا مقصد ہے ۔  

وَلَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ‌ۚ‏

ترجمہ : اور جس (خدا) کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم عبادت نہیں کرتے

Nor worship ye that which I worship.

Surat No. 109 Ayat NO. 3 

 سورة الکافرون حاشیہ نمبر : 3

اصل الفاظ ہیں مَآ اَعْبُدُ ۔ عربی زبان میں مَا کا لفظ عموما بے جان یا بے عقل چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اور ذی عقل ہستیوں کے لیے مَن کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں من اعبد کہنے کے بجائے مَآ اَعْبُدُ کیوں کہا گیا ہے؟ اس کے چار جواب عام طور پر مفسرین نے دیے ہیں ۔ ایک یہ کہ یہاں م٘ا بمعنی من ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہاں مَا بمعنی الذی ( یعنی جو باتیں ) ہے ۔ تیسرے یہ کہ دونوں فقروں میں مَا مصدر کے معنی میں ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں وہ عبادت نہیں کرتا جو تم کرتے ہو ، یعنی مشرکانہ عبادت ، اور تم وہ عبادت نہیں کرتے جو میں کرتا ہوں ، یعنی موحدانہ عبادت ۔ چوتھے یہ کہ پہلے فقرےمیں چونکہ مَا تَعْبُدُوْنَ فرمایا گیا ہے اس لیے دوسرے فقرے میں کلام کی مناسبت برقرار رکھتے ہوئے مَآ اَعْبُدُ فرمایا گیا ہے ، لیکن دونوں جگہ صرف لفظ کی یکسانی ہے ، معنی کی یکسانی نہیں ہے ، اور اس کی مثالیں قرآن مجید میں دوسری جگہ بھی ملتی ہیں ۔ مثلا سورہ بقرہ آیت 194 میں فرمایا گیا ہے: فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۔ جو تم پر زیادتی کرے اس پر تم ویسی ہی زیاتی کرو جیسی اس نے تم پر کی ہے ظاہر ہے کہ زیادتی کا ویسا ہی جواب جیسی زیادتی کی گئی ہو ، زیادتی کی تعریف میں نہیں آتا ، مگر محض کلام کی یکسانی کے لیے جوابا زیادتی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اسی طرح سورہ توبہ آیت 67 میں ارشاد ہوا ہے: ۭنَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمْ ۔ وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ ان کو بھول گیا ۔ حالانکہ اللہ بھولتا نہیں ہے اور مقصود کلام یہ ہے کہ اللہ نے ان کو نظر انداز فرما دیا ، لیکن ان کے نسیان کے جواب میں اللہ کے لیے نسیان کا لفظ محض کلام کی یکسانی برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔ 

یہ چاروں تاویلات اگرچہ ایک ایک لحاظ سے درست ہیں اور عربی زبان میں یہ سب معنی لینے کی گنجائش ہے ، لیکن ان میں سے کسی سے بھی وہ اصل مدعا واضح نہیں ہوتا جس کے لیے من اعبد کہنے کے بجائے مَآ اَعْبُدُ کہا گیا ہے ۔ دراصل عربی زبان میں کسی شخص کے لیے جب مَن کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مقصود اس کی ذات کے متعلق کچھ کہنا یا پوچھنا ہوتا ہے ، اور جب مَا کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مقصود اس کی صفت کے بارے میں استفسار یا اظہار خیال ہوتا ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اردو زبان میں جب ہم کسی شخص کے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ صاحب کون ہیں تو مقصد اس شخص کی ذات سے تعارف حاصل کرنا ہوتا ہے ، مگر جب ہم کسی شخص کے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ صاحب کیا ہیں؟ تو اس سے یہ معلوم کرنا مقصود ہوتا ہے کہ مثلا وہ فوج آدمی ہے تو فوج میں اس کا منصب کیا ہے؟ اور کسی درسگاہ سے تعلق رکھتا ہے تو اس میں ریڈر ہے؟ لکچرر ہے ؟ پروفیسر ہے؟ کس علم یا فن کا استاد ہے؟ کیا ڈگریاں رکھتا ہے؟ وغیرہ پس اگر اس آیت میں یہ کہا جاتا کہ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَن اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تم اس ہستی کی عبادت کرنے والے نہیں ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں اور اس کے جواب میں مشرکین اور کفار یہ کہہ سکتے تھے کہ اللہ کی ہستی کو تو ہم مانتے ہیں ، اور اس کی عبادت بھی ہم کرتے ہیں؟ لیکن جب یہ کہا گیا کہ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن صفات کے معبود کی عبادت میں کرتا ہوں ان صفات کے معبود کی عبادت کرنے والے تم نہیں ہو ۔ اور یہی وہ اصل بات ہے جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین منکرین خدا کے سوا تمام اقسام کے کفار کے دین سے قطعی طور پر الگ ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ آپ کا خدا ان سب کے خدا سے بالکل مختلف ہے ۔ ان میں سے کسی کا خدا ایسا ہے جس کو چھ دن میں دنیا پیدا کرنے کے بعد ساتویں دن آرام کرنے کی ضرورت پیش آئی ، جو رب العالمین نہیں بلکہ رب اسرائیل ہے ، جس کا ایک نسل کے لوگوں سے ایسا خاص رشتہ ہے جو دوسرے انسانوں سے نہیں ہے ، جو حضرت یعقوب سے کشتی لڑتا ہے اور ان کو گرا نہیں سکتا ، جو عزیر نامی ایک بیٹا بھی رکھتا ہے ، کسی کا خدا یسوع مسیح نامی ایک اکلوتے پیٹ؁ کا باپ ہے اور وہ دوسروں کے گناہوں کا کفارہ بنانے کے لیے اپنے بیٹے کو صلیب پر چڑھوا دیتا ہے ۔ کسی کا خدا بیوی بچے رکھتا ہے ، مگر بے چارے کے ہاں صرف بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں ، کسی کا خدا انسانی شکل میں روپ دھارتا ہے اور زمین پر انسانی جسم میں رہ کر انسانوں کے سے کام کرتا ہے ۔ کسی کا خدا محض واجب الوجود ، یا علت العلل یا علت اولی ( First Cause ) ہے ، کائنات کے نظام کو ایک مرتبہ حرکت دے کر الگ جا بیٹحا ہے ، اس کے بعد کائنات لگے بندھے قوانین کے مطابق خود چل رہی ہے اور انسان کا اس سے اور اس کا انسان سے اب کوئی تعلق نہیں ہے ۔ غرض خدا کو ماننے والے کفار بھی درحقیقت اس خدا کو نہیں مانتے جو ساری کائنات کا ایک ہی خالق ، مالک ، مدبر ، منتظم اور حاکم ہے ۔ جس نے نظام کائنات کو صرف بنایا ہی نہیں ہے بلکہ ہر آن وہی اس کو چلا رہا ہے اور اس کا حکم ہر وقت یہاں چل رہا ہے ۔ جو ہر عیب ، نقص ، کمزوری اور غلطی سے منزہ ہے ، جو ہر تشیہ اور تجسیم سے پاک ہے ، ہر نظیر و مثیل سے مبرا اور ہر ساتھی اور ساجھی سے بے نیاز ہے ۔ جس کی ذات ، صفات ، اختیارات اور استحقاق معبودیت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ۔ جو اس سے بالاتر ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو ، یا کسی کو وہ بیٹا بنائے ، یا کسی قوم اور نسل سے اس کا کوئی خاص رشتہ ہو جس کا اپنی مخلوق کے ایک ایک فرد کے ساتھ رزقی اور روبیت اور رحمت اور نگہبانی کا براہ راست تعلق ہے ۔ جو دعائیں سننے والا اور ان کا جواب دینے والا ہے ۔ جو موت اور زندگی ، نفع اور ضرر اور قسمتوں کے بناؤ اور بگاڑ کے جملہ اختیارات کا تنہا مالک ہے ۔ جو اپنی مخلوق کو صرف پالتا ہی نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اس کی حیثیت اور ضرورت کے مطابق ہدایت بھی دیتا ہے ۔ جس کے ساتھ ہمارا تعلق صرف یہی نہیں ہے کہ وہ ہمارا معبود ہے اور ہم اس کی پرستش کرتے ہیں ، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ہمیں امر و نہی کے احکام دیتا ہے اور ہمارا کام اس کے احکام کی اطاعت کرنا ہے ۔ جس کے سامنے ہم اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہیں ، جو مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ اٹھانے والا ہے اور ہمارے اعمال کا محاسبہ کر کے جزا اور سزا دینے والا ہے ۔ ان صفات کے معبود کی عبادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی پیروی کرنے والوں کے سوا دنیا میں کوئی بھی نہیں کر رہا ہے ۔ دوسرے اگر خدا کی عبادت کر بھی رہے ہیں تو اصلی اور حقیقی خدا کی نہیں بلکہ اس خدا کی عبادت کر رہے ہیں جو ان کا اپنا اختراع کردہ ایک خیالی خدا ہے ۔

  وَلَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمۡۙ‏

ترجمہ : اور( میں پھر کہتا ہوں کہ) جن کی تم پرستش کرتے ہوں ان کی میں پرستش کرنے والا نہیں ہوں

And I shall not worship that which ye worship.

وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُؕ‏

ترجمہ : اور نہ تم اس کی بندگی کرنے والے (معلوم ہوتے) ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں

Nor will ye worship that which I worship.

Surat No. 109 Ayat NO. 5 

 سورة الکافرون حاشیہ نمبر : 4

مفسرین میں سے ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دونوں فقرے پہلے دو فقروں کے مضمون کی تکرار ہیں ، اور یہ تکرار اس غرض کے لیے کی گئی ہے کہ اس بات کو زیادہ پر زور بنا دیا جائے جو پہلے دو فقروں میں کہی گئی تھی ۔ لیکن بہت سے مفسرین اس کو تکرار نہیں مانتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ان میں ایک اور مضمون بیان کیا گیا ہے جو پہلے فقروں کے مضمون سے مختلف ہے ۔ ہمارے نزدیک اس حد تک تو ان کی بات صحیح ہے کہ ان فقروں میں تکرار نہیں ہے ، کیونکہ ان میں صرف اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں کا اعادہ کیا گیا ہے ۔ اور یہ اعادہ بھی اس معنی میں نہیں ہے جس میں یہ فقرہ پہلے کہا گیا تھا ۔ مگر تکرار کی نفی کرنے کے بعد مفسرین کے اس گروہ نے ان دونوں فقروں کے جو معنی بیان کیے ہیں وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں ۔ یہاں اس کا موقع نہیں ہے کہ ہم ان میں سے ہر ایک کے بیان کردہ معنی کو نقل کر کے اس پر بحث کریں ، اس لیے طول کلام سے بچتے ہوئے ہم صرف وہ معنی بیان کریں گے جو ہمارے نزدیک صحیح ہیں ۔ 

پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے اس کا مضمون آیت نمبر 2 کے مضمون سے بالکل مختلف ہے جس میں فرمایا گیا تھا کہ میں ان کی عبادت نہیں کرنا جن کی عبادت تم کرتے ہو ۔ ان دونوں باتوں میں دو حیثیتوں سے بہت بڑا فرق ہے ۔ ایک یہ کہ میں فلاں کام نہیں کرتا یا نہیں کروں گا کہنے میں اگرچہ انکار اور پرزور انکار ہے ، لیکن اس سے بہت زیادہ زور یہ کہنے میں ہے کہ میں فلاں کام کرنے والا نہیں ہوں ، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسا برا کام ہے جس کا ارتکاب کرنا تو درکنار اس کا ارادہ یا خیال کرنا بھی میرے لیے ممکن نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ جن کی عبادت تم کرتے ہو کا اطلاق صرف ان معبودوں پر ہوتا ہے جن کی عبادت کفار اب کر رہے ہیں ۔ بخلاف اس کے جن کی عبادت تم نے کی ہے کا اطلاب سن سب معبودوں پر ہوتا ہے جن کی عبادت کفار اور ان کے آباؤ اجداد زمانہ ماضی میں کرتے رہے ہیں ۔ اب یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مشرکین اور کفار کے معبودوں میں ہمیشہ ردو بدل اور حذف و اضافہ ہوتا رہا ہے ، مختلف زمانوں میں کفار کے مختلف گروہ مختلف معبودوں کو پوجتے رہے ہیں ، اور سارے کافروں کے معبود ہمیشہ اور ہر جگہ ایک ہی نہیں رہے ہیں ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے آج کے معبودوں ہی سے نہیں بلکہ تمہارے آباؤ اجداد کے معبودوں سے بھی بری ہوں اور میرا یہ کام نہیں ہے کہ ایسے معبودوں کی عبادت کا خیال تک اپنے دل میں لاؤں ۔  

لَـكُمۡ دِيۡنُكُمۡ وَلِىَ دِيۡنِ‏

ترجمہ : تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر

Unto you your religion, and unto me my religion.

Surat No. 109 Ayat NO. 6 

 سورة الکافرون حاشیہ نمبر : 5

یعنی میرا دین الگ ہے اور تمہارا دین الگ ۔ میں تمہارے معبودوں کا پرستار نہیں اور تم میرے معبود کے پرستار نہیں ۔ میں تمہارے معبودوں کی بندگی نہیں کرسکتا اور تم میرے معبود کی بندگی کے لیے تیار نہیں ہو ۔ اس لیے میرا اور تمہارا راستہ کبھی ایک نہیں ہوسکتا ۔ یہ کفار کو رواداری کا پیغام نہیں ہے ، بلکہ جب تک وہ کافر ہیں ان سے ہمیشہ کے لیے براءت ، بیزاری اور لا تعلقی کا اعلان ہے ، اور اس سے مقصود ان کو اس امر سے قطعی اور آخری طور پر مایوس کردینا ہے کہ دین کے معاملہ میں اللہ کا رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کا گروہ کبھی ان سے کوئی مصالحت کرے گا ، یہی اعلان براءت اور اظہار بیزاری اس سورۃ کے بعد نازل ہونے والی مکی سورتوں میں پے در پے کیا گیا ہے ۔ چنانچہ سورہ یونس میں فرمایا اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے لیے اور تمہارا عمل تمہارے لیے ، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں ۔ ( آیت 41 ) پھر آگے چل کر اسی سورہ میں فرمایا اے نبی ، کہہ دو کہ لوگو ، اگر تم میرے دین کے متعلق ( ابھی تک ) کسی شبہ میں ہو تو ( سن لو کہ ) اللہ کے سوا تم جن کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا ، بلکہ صرف اس خدا کی بندگی کرتا ہوں جس کے اختیار میں تمہاری موت ہے ( آیت 104 ) سورہ سبا میں فرمایا ان سے کہو جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی باز پرس تم سے نہ ہوگی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی کوئی جواب طلبہ یم سے نہیں کی جائے گی ، کہو ہمارا رب ( ایک وقت ) ہمیں اور تمہیں جمع کرے گا اور ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے گا ۔ ( آیات 25 ۔ 26 ) سورہ زمر میں فرمایا ان سے کہو ، اے میری قوم کے لوگو ، تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ ، میں اپنا کام کرتا رہوں گا ، عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر رسوا کن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو ٹلنے والی نہیں ۔ ( آیات 39 ۔ 40 ) پھر یہی سبق مدینہ طیبہ میں تمام مسلمانوں کو دیا گیا کہ تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے ، جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو ، قطعی بیزار ہیں ، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واح پر ایمان نہ لاؤ ۔ ( الممتحنہ ۔ آیت 4 ) قرآن مجید کی ان پے در پے توضیحات سے اس شبہ کی گنجائش تک نہیں رہتی کہ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہو اور مجھے اپنے دین پر چلنے دو ۔ بلکہ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی سورہ زمر میں فرمائی گئی ہے کہ اے نبی ان سے کہو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسی کی بندگی کروں گا ، تم اسے چھوڑ کر جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو ۔ ( آیت 14 ) 

اس آیت سے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی نے یہ استدلال کیا ہے کہ کافروں کے مذاہب خواہ باہم کتنے ہی مختلف ہوں لیکن کفر بحیثیت مجموعی ایک ہی ملت ہے ، اس لیے یہودی عیسائی کا ، اور عیسائی یہودی کا ، اور اسی طرح ایک مذہب کا کافر دوسرے مذہب کے کافر کا وارث ہوسکتا ہے اگر ان کے درمیان نسب ، یا نکاح یا کسی سبب کی بناپر کوئی ایسا تعلق ہو جو ایک کی وراثت دوسرے کو پہنچنے کا مقتضی ہو ۔ بخلاف اس کے امام مالک ، امام اوزاعی اور امام احمد اس بات کے قائل ہیں کہ ایک مذہب کے پیرو دوسرے مذہب کے پیرو کی وراثت نہیں پاسکتے ۔ ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا یتوارث اھل ملتین شتی ۔ دو مختلف ملتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے ۔ ( مسند احمد ، ابو داؤد ، ابن ماجہ ، دار قطنی ) اس سے ملتے جلتے مضمون کی ایک حدیث ترمذی نے حضرت جابر سے اور ابن حبان نے حضرت عبداللہ بن عمر سے اور بزار نے حضرت ابو ہریرہ سے نقل کی ہے ۔ اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے مسلک حنفی کے مشہور امام شمس الائمہ سرخسی لکتے ہیں ۔ کفار آپس میں ان سب اسباب کی بنا پر بھی ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں جن کی بنا پر مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں ، اور ان کے درمیان بعض ایسی سورتوں میں بھی توارث ہوسکتا ہے جن میں مسلمانوں کے درمیان نہیں ہوتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بس دو ہی دین قرار دیے ہیں ، ایک دین حق ، دوسرے دین باطل چنانچہ فرمایا لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ ۔ اور اس نے لوگوں کے دو ہی فریق رکھے ہیں ، ایک فریق جنتی ہے اور وہ مومن ہے ۔ اور دوسرا فریق دوزخی ہے اور وہ بحیثیت مجموعی تمام کفار ہیں ۔ اور اس نے دو ہی گروہوں کو ایک دوسرے کا مخالف قرار دیا ہے ۔ چنانچہ فرمایا ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ ( یہ دو مد مقابل فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھگڑا ہے ۔ الحج آیت 19 ) یعنی ایک فریق تمام کفار بحیثیت مجموعی ہیں اور ان کا جھگڑا اہل ایمان سے ہے ۔ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق باہم الگ الگ ملتیں ہیں ، بلکہ مسلمانوں کے مقابلے میں وہ سب ایک ملت ہیں کیونکہ مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآن کا اقرار کرتے ہیں اور وہ ان کا انکار کرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ کافر قرار پائے ہیں اور مسلمانوں کے معاملہ میں وہ سب ایک ملت ہیں ۔ حدیث لا یتوارث اھل ملتین اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے ، کیونکہ ملتین ( دو ملتوں ) کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد سے کردی ہے کہ لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم ۔ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہوسکتا ہے ، ( المبسوط ، جلد 3 ، صفحات 30 ۔ 32 ) امام سرخسی نے یہاں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے بخاری ، مسلم ، نسائی ، احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ اور ابو داؤد نے حضرت اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے ۔  

Thank you for reading.. May Allah give us Hidaya and show us the right path. Ameen ♥️.

Do share it with your friends and family ♥️

جزاک اللہ خیراً کثیرا ♥️

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Asma ul husna, Names of Allah, Alrehman , Rehman name of Allah, Al-Raheem, Raheem,Al-Qudoos, Qudoos name of Allah, Qualities of Allah, اسماء الحسنٰی ، الرحمٰن الرحیم القدوس ، اللّٰہ کی صفات

Sacred months in islam, hurmat waly maheenay, month rajab , muharam rabi ul awal, zeqaad,حرمت والے مہینے

Prophet Muhammad grand father, ,Prophet Muhammad SAW ancestors, History of tribe Quraish, Prophet Muhammad's SAW lineage, حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلے کی تاریخ ,